Saturday, 9 March 2019

International woman day "khan zaman kakar"

میں نے کل اسلام آباد میں "عورت آزادی مارچ" میں شرکت کی۔ جس میں میرا ایک غرض پاکستان جیسی مستبد ریاست میں ایک سیاسی عمل کو سپورٹ کرنا تھا اور دوسرا شہری جدوجہد، نئے متوسط طبقے اور مرکزی علاقے کی جدوجہد کے خدوخال کو کچھ قریب سے دیکھنا تھا۔
عورت مارچ بلاشبہ ایک اہم سیاسی عمل تھا۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت کیلئے مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ اس میں افراد تھے جو ایک اجتماعی نظم میں پرونے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اس خواہش میں اتنے ہی زیادہ تضاد دیکھنے کو ملے جتنے اس دور کے نظریاتی تضادات ہیں۔ شرکاء میں سے نظریاتی پختگی اور ایک لانگ ٹرم کی سیاسی پالیسی کے متلاشی کتنے ہونگے اس کا پورا اندازہ ان کے نعروں اور پلے کارڈز سے لگانا مشکل تھا لیکن ایک بات پورے یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ عورت مارچ کا بنیادی مقصد خواتین کیلئے اپنی شناخت کا دعویٰ کرنا تھا۔ خاتون ہونے (being woman) کو نہ صرف ایک علحیدہ کٹیگری کے طور پر دکھانا اور ابھارنا مقصد تھا بلکہ اس کو ایک سیاسی سرگرمی اور کرئیر کے طور پر پیش کرنا بھی ترجیحات میں سے تھا۔ تفخر اور مظلومیت کے ملے جلے اور متضاد جذبات، متنوع اور متضاد مطالبات اور لبرلزم، مارکسزم، نیشنلزم اور اسلام کے مختلف رنگ جو عورت مارچ میں نظر آئے اس سے صرف ایک مخصوص طبقے کی تاریخی شناخت کا خدوخال واضح ہوتا تھا۔ پورے سماج کی نمائندگی کا دعوی' شاید وہاں کیا بھی نہیں گیا اور کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جتنی آزادی اسی پدرسری سماج میں ان خواتین کو حاصل تھی اتنی آزادی پانے کیلئے محکوم قوموں کے مردوں نے سالہا سال جدوجہد کی، پا نہیں سکی۔  پانچ وقت کے نمازی قوم پرستوں کی روزمرہ سیاست میں ریاست کی طرف سے 'اسلام کی مداخلت' کی جو پالیسی ہے وہ عورت مارچ جیسی شہری سرگرمیوں میں شریک لوگوں کی علاقائی اور سماجی حثیت کے پیش نظر کبھی نہیں اپنائی جاسکتی۔ یہ ایک تاریخی اور ساختیاتی مسئلہ ہے۔
اس نیو لبرل دور میں آزادی ایک free-floating اصطلاح بن کے رہی ہے۔ کون کو کس سے آزادی چاہے کو ایک انسان کی ذات تک محدود کرنے کا ٹرینڈ شعوری اور لاشعوری طور پر ایک مقبول بیانیہ تشکیل کرگیا ہے اور میٹروپولیٹن میں آباد انسان کی موضوعی شخصیت اتنی ابھر گئی ہے جس کو اب ایک سیرِ حاصل مکالمے اور اجتماعی احساسِ شراکت میں دیکھنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جنسی امتیاز جیسے گہرے تاریخی مسئلے کے سیاسی اظہار کو کیسے ایک دن میں سمٹنے کو کارنامہ سمجھا گیا ہے لیکن اسی ایک دن کا "شور" بھی شاید کسی کیلئے میٹرو پولیٹن کی بے حسی میں ایک غنیمت سے کم نہ ہو۔
 فکری پسماندگی اور فکری سطحی پن میں انتخاب کی بنیاد پر پوری دنیا کو قدامت پرست اور روشن خیال میں تقسیم کرنے کی سیاست پچھلے چالیس سال میں اپنے ہی بحران کاشکار رہی ہے اور کسی بھی حوالے سے انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال روکنے کا کوئی ایک ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ قدامت پسندی اور روشن خیالی کے مصنوعی تضاد کی نشاندہی کرنے والوں کو ایک سیاسی "اقلیت" قرار دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حتیٰ کہ مکالمے کی گنجائش بھی نہیں رکھی گئی ہے۔ تشخص کی سیاست قومی آزادی کے سوال سے ذات اور جنس کی سطح تک پہنچانے کو انسان کی تاریخ میں ایک ترقی یافتہ سٹیج قرار دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے مستبد ریاستوں نے بڑی حد تک اپنا استحکام یقینی بنایا ہے۔
لبرل فیمینزم کا جو میٹا نریٹیو بناکے دیا گیا انسانی معاشروں کے حوالے سے سنگین فکری مغالطوں اور خطرناک جنرلائزیشنز کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ "ترقی" اور "پسماندگی" کی جو حدِ امتیاز بتائی گئی ہے اس کی جڑ اس استعماری تاریخ میں ہے جب دنیا میں قوموں کو اپنی تاریخی نشوونما کرنے سے روکا گیا اور ان کو کائناتی معیارات پہ پورا اترنے کا پابند بنایا گیا۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے مرکزیت پسند فیمینسٹوں کو یہاں پہ آباد قوموں کے جنسی سوالات کی تاریخ کی اے بی سی کا بھی پتہ ہو، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ ناانصافی خاتمہ ہو۔ پدرسری ہے، پدرسری ختم ہو۔ اب کہاں پہ کونسی پدرسری ہے اس بحث میں کوئی نہیں پڑتا۔ پدرسری کو کیسے ختم کیا جائے کوئی سیاسی پروگرام بتانے کی بجائے روزگار، تعلیم اور انتہائی ذاتی نوعیت کے حقوق کے کھوکھلے نعروں پہ ہی اکتفاء کیا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حل کے طور پر ریاست کی مداخلت کی بجائے ان کے پاس نہ کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ کل کا "عورت مارچ" بھی بار بار سیاسی نعروں، جھنڈوں اور اختلافات سے بالاتر رکھنے کا ثبوت پیش کرتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنے جھنڈے لہرانے سے سختی سے منع کیا گیا۔ یا تو ان لوگوں کو ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا اور یا سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کی وہی پرانی کوشش تھی جو سول سوسائٹی کا خاصہ رہی ہے۔ ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی بڑی جمہوری سیاسی جماعت کا جھنڈا وہاں پہ لانا اور لہرانا ایک بڑی معنی رکھتا تھا۔ سنیٹر شہری رحمان نے اس حوالے سے جو احتجاج کیا وہ جائز تھا۔
پاکستان میں ہر بالادست بیانیے کی کلیت اور تکثریت کا سوال اب بلوچستان اور وزیرستان کے کچھ سلیکٹڈ حوالوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ "عورت مارچ" میں بھی یہی صورتحال تھی، باقی کسی بلوچستان اور "وزیرستان" (پشتونخوا) کی کوئی شکل وہاں پہ نظر نہیں آئی۔
شرکاء میں بعض پشتون اور بلوچ دوستوں نے ہم سے اپنے احساسِ بیگانگی کا بھی ذکر کیا، ایسا لگتا تھا کہ کسی نئی کائنات میں آگئے ہوں۔ بعض نے سرمایہ دار اور غریب عورتوں کی دو الگ کائناتوں پہ بھی بات کرنا چاہا لیکن میرے لئے مارچ میں شریک خواتین کہ وہ کتنی سرمایہ دار ہیں اور کتنی غریب ہیں کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ ویسے میں نے مارچ میں جانے سے پہلے ہندوستان کے اردو ترقی پسند ادب کے ایک بڑے نام علی سردار جعفری کی ایک نظم (سرمایہ دار لڑکیاں) فیسبوک پہ شئیر کی تھی۔ وہ نظم تو کوئی نصف صدی پہلے لکھی گئی تھی، آج سرمایہ داری اور سرمایہ دار لڑکیوں کا ایک اور قسم کا پیچیدہ سسٹم بن گیا ہے۔ مارچ میں تو مجھے پاکستان کا وہ نیا متوسط طبقہ نظر آتا تھا جس کا سب کچھ، علم و بصیرت، جسم و مرضی، کھانا و بستر اور آزادی و انقلاب میٹرو پولیٹن کے ساتھ جڑا ہوا ہے

International woman day Discribed bykhan zaman kakar

میں نے کل اسلام آباد میں "عورت آزادی مارچ" میں شرکت کی۔ جس میں میرا ایک غرض پاکستان جیسی مستبد ریاست میں ایک سیاسی عمل کو سپورٹ کرنا تھا اور دوسرا شہری جدوجہد، نئے متوسط طبقے اور مرکزی علاقے کی جدوجہد کے خدوخال کو کچھ قریب سے دیکھنا تھا۔
عورت مارچ بلاشبہ ایک اہم سیاسی عمل تھا۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت کیلئے مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ اس میں افراد تھے جو ایک اجتماعی نظم میں پرونے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اس خواہش میں اتنے ہی زیادہ تضاد دیکھنے کو ملے جتنے اس دور کے نظریاتی تضادات ہیں۔ شرکاء میں سے نظریاتی پختگی اور ایک لانگ ٹرم کی سیاسی پالیسی کے متلاشی کتنے ہونگے اس کا پورا اندازہ ان کے نعروں اور پلے کارڈز سے لگانا مشکل تھا لیکن ایک بات پورے یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ عورت مارچ کا بنیادی مقصد خواتین کیلئے اپنی شناخت کا دعویٰ کرنا تھا۔ خاتون ہونے (being woman) کو نہ صرف ایک علحیدہ کٹیگری کے طور پر دکھانا اور ابھارنا مقصد تھا بلکہ اس کو ایک سیاسی سرگرمی اور کرئیر کے طور پر پیش کرنا بھی ترجیحات میں سے تھا۔ تفخر اور مظلومیت کے ملے جلے اور متضاد جذبات، متنوع اور متضاد مطالبات اور لبرلزم، مارکسزم، نیشنلزم اور اسلام کے مختلف رنگ جو عورت مارچ میں نظر آئے اس سے صرف ایک مخصوص طبقے کی تاریخی شناخت کا خدوخال واضح ہوتا تھا۔ پورے سماج کی نمائندگی کا دعوی' شاید وہاں کیا بھی نہیں گیا اور کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جتنی آزادی اسی پدرسری سماج میں ان خواتین کو حاصل تھی اتنی آزادی پانے کیلئے محکوم قوموں کے مردوں نے سالہا سال جدوجہد کی، پا نہیں سکی۔  پانچ وقت کے نمازی قوم پرستوں کی روزمرہ سیاست میں ریاست کی طرف سے 'اسلام کی مداخلت' کی جو پالیسی ہے وہ عورت مارچ جیسی شہری سرگرمیوں میں شریک لوگوں کی علاقائی اور سماجی حثیت کے پیش نظر کبھی نہیں اپنائی جاسکتی۔ یہ ایک تاریخی اور ساختیاتی مسئلہ ہے۔
اس نیو لبرل دور میں آزادی ایک free-floating اصطلاح بن کے رہی ہے۔ کون کو کس سے آزادی چاہے کو ایک انسان کی ذات تک محدود کرنے کا ٹرینڈ شعوری اور لاشعوری طور پر ایک مقبول بیانیہ تشکیل کرگیا ہے اور میٹروپولیٹن میں آباد انسان کی موضوعی شخصیت اتنی ابھر گئی ہے جس کو اب ایک سیرِ حاصل مکالمے اور اجتماعی احساسِ شراکت میں دیکھنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جنسی امتیاز جیسے گہرے تاریخی مسئلے کے سیاسی اظہار کو کیسے ایک دن میں سمٹنے کو کارنامہ سمجھا گیا ہے لیکن اسی ایک دن کا "شور" بھی شاید کسی کیلئے میٹرو پولیٹن کی بے حسی میں ایک غنیمت سے کم نہ ہو۔
 فکری پسماندگی اور فکری سطحی پن میں انتخاب کی بنیاد پر پوری دنیا کو قدامت پرست اور روشن خیال میں تقسیم کرنے کی سیاست پچھلے چالیس سال میں اپنے ہی بحران کاشکار رہی ہے اور کسی بھی حوالے سے انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال روکنے کا کوئی ایک ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ قدامت پسندی اور روشن خیالی کے مصنوعی تضاد کی نشاندہی کرنے والوں کو ایک سیاسی "اقلیت" قرار دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حتیٰ کہ مکالمے کی گنجائش بھی نہیں رکھی گئی ہے۔ تشخص کی سیاست قومی آزادی کے سوال سے ذات اور جنس کی سطح تک پہنچانے کو انسان کی تاریخ میں ایک ترقی یافتہ سٹیج قرار دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے مستبد ریاستوں نے بڑی حد تک اپنا استحکام یقینی بنایا ہے۔
لبرل فیمینزم کا جو میٹا نریٹیو بناکے دیا گیا انسانی معاشروں کے حوالے سے سنگین فکری مغالطوں اور خطرناک جنرلائزیشنز کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ "ترقی" اور "پسماندگی" کی جو حدِ امتیاز بتائی گئی ہے اس کی جڑ اس استعماری تاریخ میں ہے جب دنیا میں قوموں کو اپنی تاریخی نشوونما کرنے سے روکا گیا اور ان کو کائناتی معیارات پہ پورا اترنے کا پابند بنایا گیا۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے مرکزیت پسند فیمینسٹوں کو یہاں پہ آباد قوموں کے جنسی سوالات کی تاریخ کی اے بی سی کا بھی پتہ ہو، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ ناانصافی خاتمہ ہو۔ پدرسری ہے، پدرسری ختم ہو۔ اب کہاں پہ کونسی پدرسری ہے اس بحث میں کوئی نہیں پڑتا۔ پدرسری کو کیسے ختم کیا جائے کوئی سیاسی پروگرام بتانے کی بجائے روزگار، تعلیم اور انتہائی ذاتی نوعیت کے حقوق کے کھوکھلے نعروں پہ ہی اکتفاء کیا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حل کے طور پر ریاست کی مداخلت کی بجائے ان کے پاس نہ کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ کل کا "عورت مارچ" بھی بار بار سیاسی نعروں، جھنڈوں اور اختلافات سے بالاتر رکھنے کا ثبوت پیش کرتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنے جھنڈے لہرانے سے سختی سے منع کیا گیا۔ یا تو ان لوگوں کو ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا اور یا سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کی وہی پرانی کوشش تھی جو سول سوسائٹی کا خاصہ رہی ہے۔ ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی بڑی جمہوری سیاسی جماعت کا جھنڈا وہاں پہ لانا اور لہرانا ایک بڑی معنی رکھتا تھا۔ سنیٹر شہری رحمان نے اس حوالے سے جو احتجاج کیا وہ جائز تھا۔
پاکستان میں ہر بالادست بیانیے کی کلیت اور تکثریت کا سوال اب بلوچستان اور وزیرستان کے کچھ سلیکٹڈ حوالوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ "عورت مارچ" میں بھی یہی صورتحال تھی، باقی کسی بلوچستان اور "وزیرستان" (پشتونخوا) کی کوئی شکل وہاں پہ نظر نہیں آئی۔
شرکاء میں بعض پشتون اور بلوچ دوستوں نے ہم سے اپنے احساسِ بیگانگی کا بھی ذکر کیا، ایسا لگتا تھا کہ کسی نئی کائنات میں آگئے ہوں۔ بعض نے سرمایہ دار اور غریب عورتوں کی دو الگ کائناتوں پہ بھی بات کرنا چاہا لیکن میرے لئے مارچ میں شریک خواتین کہ وہ کتنی سرمایہ دار ہیں اور کتنی غریب ہیں کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ ویسے میں نے مارچ میں جانے سے پہلے ہندوستان کے اردو ترقی پسند ادب کے ایک بڑے نام علی سردار جعفری کی ایک نظم (سرمایہ دار لڑکیاں) فیسبوک پہ شئیر کی تھی۔ وہ نظم تو کوئی نصف صدی پہلے لکھی گئی تھی، آج سرمایہ داری اور سرمایہ دار لڑکیوں کا ایک اور قسم کا پیچیدہ سسٹم بن گیا ہے۔ مارچ میں تو مجھے پاکستان کا وہ نیا متوسط طبقہ نظر آتا تھا جس کا سب کچھ، علم و بصیرت، جسم و مرضی، کھانا و بستر اور آزادی و انقلاب میٹرو پولیٹن کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

Monday, 4 March 2019

د پاکستان پوځي او استخباراتي ادارو چې تر ټولو زيات د کوم سياسي مشر د بدنامولو او ځپلو هڅه وکړه هغه د عوامي نېشنل ګوند مرکزي صدر اسفنديار ولي خان دی.”خان زمان کاکړ“


د پاکستان پوځي او استخباراتي ادارو چې تر ټولو
زيات د کوم سياسي مشر د بدنامولو او ځپلو هڅه وکړه هغه د عوامي نېشنل ګوند مرکزي صدر اسفنديار ولي خان دی.
موږ پوهېږو چې اسفنديار خان ته د کوم "جرم" سزا ورکول شوه.
موږ په دې هم پوهېږو چې د دې دور مقبول دريځ ولې يوازې د اسفنديار خان په ضد دی.
موږ پوهېږو چې د متوسطې او ښاري طبقې "ستونزه" څه ده.
موږ پوهېږو چې د رهبر تحريک خان عبدالولي خان ټول مخالفين نن هم پر اسفنديار خان د ګوزار يو چانس له لاسه نه ورکوي.
موږ پوهېږو چې د تاريخ په درست سمت کې مزل ضروري نه ده چې د مقبولو غبرګونونو په تول پوره وخېژي.
موږ پوهېږو چې اسفنديار خان خپل ملي مرام او ارمان ته څومره ژمن دی.
د ګوند د آئين او جمهوري فېصلو پاسداري دې څوک له اسفنديار خانه زده کړي.
اسفنديار ولي خان ښايي په پښتنو او هم په پاکستان کې يوازينی مشر وي چې د ليډرشيپ د انا پر زينه کله هم د کارکنانو کچې ته نه وي راکوز شوی.
بدترين زندانونه او ټارچر سېلونه يې زغملي دي.
د مرګ ګواښونه او د مرګ بريدونه يې ليدلي دي.
يو مردار مېډيا ټرايل ته په کلونو مخامخ پاته شوی دی.
نه د ناتمامو فريبکارانو له مېډ ان ايسټبلشمنټ الزامونو څخه و وېرېد او نه د خپلچارو او خپلکورو جفا زړه ماتې کړ.
د پلار او نيکه پر لمن لګېدلی د انډيا او افغانستان د ايجنټۍ تور يې د پلار و نيکه د ميراث په توګه پر خپله لمن د يو مقدس امانت په توګه سنبهال وساتلو, د امريکې د ايجنټۍ تور يې هم ورباندې اضافه کړ او د پينډۍ د ايجنټۍ تور يې لکه د "سرپلس وېليو" هم ورپسې واخيست, د ورلډ بېنک د کرپشن نيولبرل بيانيه هم چې په اسلامي جمهوريه پاکستان کې په يو داغ کې راغونډه شوه نو هغه داغ هم د اسفنديار پر لمن پرېوت - څومره پراخه لمن ده - په رښتيا چې د باچاخان لمن ده.
اسفنديار خان نن اويا کلن شو.
د زوکړې ورځ يې بختوره شه!!

پی ټی یم او عوامی نشنل ګوند“خان زمان کاکړ“

د تقرير د ضرورت دپاره بايد د پلار په ږيره پورې مسخرې و نه شي او د قام له سياسي مستقبل سره لوبې ......
که عوامي نېشنل ګوند دی
که د پښتون ژغورنې غورځنګ دی
دواړه د عدم تشدد پر پاليسي کاربند دي.
په دې کې بله خبره کېدای نه شي.
په دې کې بله خبره موږ منو نه.
له اولس سره وعده د عدم تشدد پر بنياد شوې ده.
موږ بايد خپل ځوانان له فکري ستړو سره مخامخ نه کړو.
که څوک وايي موږ ته په اويا کاله کې عدم تشدد څه راکړل؟
زه ورڅخه سوال کوم چې تاسو ته په درې سوه کاله کې تشدد څه درکړل؟
موږ ته د باچاخان د عدم تشدد تحريک څه ګټه ورسوله؟
ولې موږ دا سوال نه شو کولی چې تاسو ته د عمرا خان, ملا پوونده, د ترنګزو د حاجي صاحب, فقير اېپي حاجي مرزلي خان, صنوبر حسېن کاکاجي, پښتونستانيانو او افغان انقلابيانو تشدد کومه ګټه ورسوله؟
د باچاخان د عدم تشدد يو تسلسل پاته دی, که نور نه وي داسې څه خو پاته دي چې تاسو شپه او ورځ ورته ښکنځلې کولی او پېغورونه ورکولی شئ.
په دې بل تسلسل کې ولې څه پاته نه شول؟
ولې يو ټوپک نشته چې د پنجاب په طرف مو سيخ شوی ليدلی وای؟
د لښکرونو ملک ته وايه
په مړو موړ شوې که لا نور کوې جنګونه

ارمان شهيد// خان زمان کاکړ

ارمان شهيد// خان زمان کاکړ

ارمـان لـکه شــهـيـد د مـرګ لــه قېد څـخه ازاد دی
ارمــان لـکه "ســپېڅلی بغـاوت" خـلکـو ته يـاد دی

ارمـان لکـه پښــتو ټـپه د ټــول اولــس مـيراث دی
د ټول اولـس شـريک دی او د ټول اولس ايجاد دی

‏ارمـــان لــکـه "پښـــتون پـرلـت" يـو نابـبـره تـنـدر
پر ســـر باندې لوېدلی د منحــوس اســلام آباد دی

ارمـان لکـه د لمـر لـومـړنۍ وړانګه په وطــــن کـې
د روڼ ســـباوون زيری دی، د نـــوي ژوند بنياد دی

‏پنجــاب ويل پر ټـول افغانســتان فــرض جـهاد دی
ارمـان ويل  فســــاد دی او فســاد دی او فسـاد دی

ارمــان زمـا جــانان، زمــا مــلګـری، زمـــا ورور دی
ارمـان زمـا پښـــتو، زمــا ســــيالــي، زمـا مـراد دی

‏ارمـــان د قـــام د ننــګ يــو لازوالــه عــلامــت دی
ارمــان د لښـــکـر روح، د اولســـونــو اعتــــماد دی

 ارمـــان د ســـــرښـــندنې روايت دی هم دوام دی
ارمـــان د "ابــراهـيـم" د مـعــنوي ويــنې اولاد دی

‏هـېرېږي نه خـتمـېږي  د ارمـــــان د وينې قــــرض
پنجــاب ته دي معــلـوم وي د افغان د وينې قرض

۲۳ فروري ۲۰۱۹

عوامي نېشنل ګوند او جنګځپلی افغانستان/ خان زمان کاکړ

د عوامي نېشنل ګوند ټول نظرياتي او تنظيمي چوکاټ د فخرِ افغان باچاخان د ټولنيزې اصلاح، اولسي، سيکولر، جمهوري، ضدِ استعماري او خپلواکي غوښتونکې مبارزې پر اساس رغېدلی دی. د باچاخان تحريک د يو ډائنامک تسلسل پۀ ترڅ کښې يا د يو جمهوري ډائناميزم پۀ لاره پۀ خپل ارتقايي سفر کښې، لۀ کالونيل او پوسټ کالونيل بندېزونو سره پۀ مخامختيا کښې، د حالاتو غوښتنو ته پۀ پام سره، د ژورو شعوري هڅو پۀ زور د عوامي نېشنل ګوند بڼه خپله کړې ده خو يو مهم ټکی دا بايد چې پۀ پام کښې ونيول شي چې پۀ يو زورواکه رياست کښې پر دې پارلېماني او رجسټرډ ګوند باندې د قامي تحريک رنګ او نفسيات دومره غالب پاته شوي چې د پښتون قام او نورو جمهوري او مترقي خلقو هيلې ورڅخه همېشه د يو ګوند تر محدود صلاحيت او دائره اختيار لوړې پاته شوې دي او هم پر دې بنياد ورسره د زورواکه رياست ظالمانه چلند پاته شوی دی. نن د عوامي نېشنل ګوند پۀ حواله د خپلو او پردو ټول حساب کتاب، هيلې او ارمانونه او تنقيدونه او پېغورونه د باچاخان د مفکورې او مبارزې پۀ رڼا کښې رامنځ ته کېږي. دا به ښائي د ای اېن پي غوندې حزبونو د پاره يوه فطري مجبوري وي چې د يوې محدودې پارلېماني ساحې او يو پراخ قامي تحريک پۀ منځ کښې د يو کشمکش پۀ بڼه پۀ داسې توګه خوځښت وکړي چې کله ئې د يو پراخ قام لوړو غوښتنو ته پۀ وفاداري کښې پارلېماني ضرورتونه بیخي زيانمن شي او کله بيا پۀ ډېر لږ تنظيمي او پارلېماني صلاحيت دومره لويې قامي ګټې وکړي چې د برسېرنو نفسياتو وګړو ته ئې سنجول بیخي ناممکن شي.
عوامي نېشنل ګوند د احمد شاهي افغانستان پۀ هغه برخه کښې قرار لري چې د نولسمې پېړۍ پۀ اواخرو کښې برطانوي استعمار پۀ انتهائي جبر سره تر خپل تسلط لاندې راوړې وه او د افغانستان د هغه وخت باچا امير عبدالرحمان خان دومره ضرور کړي وو چې د برطانوي هند او زارِ روس پۀ منځ کښې ئې د افغانستان د يوې مهمې برخې د بائيللو برسېره د يو جديد رياست د رغونې عمل پۀ چټکتيا سره پېل کړی ؤ. کۀ څۀ هم لۀ هندوستان سره د افغانانو تعلق ډېر وختينی ؤ، پر دې ټوله سيمه ئې د تجارت او مالدارۍ د پاره د حرکت جوتې لارې لرلې او بيا ئې واکمنۍ او امپراتورۍ هم ورباندې رغولې وې، د دوو زبر ځواکونو پۀ منځ کښې چې افغانستان د بفر سټېټ بڼه خپله کړه او افغاني ټولنه يو ډول انجماد ته ټېل وهل شوه نو د ژوند او کاروبار د وسيلو لټولو د پاره د دې مرکزي اسيائي ملت د وګړو مخ تر يوۀ حده د سوېلي اسيا پۀ طرف وګرځېد خو د ډيورنډ د خط د غځېدلو وروسته د افغانستان د يوې مهمې برخې سرنوشت نېغ پۀ نېغه لۀ سوېلي اسيا سره د تړلو پلان عملي کېدل پېل شول. لکه چې مخکښې يادونه وشوه، لۀ سوېلي اسيا سره د افغانانو پېژندګلوي پۀ دې وخت کښې نۀ پېلېږي بلکې د افغانانو او هند کلتوري، فکري او اقتصادي اړيکې پۀ معلوم تاريخ کښې لۀ لومړي سره جوتې معلومېږي او هم دا هغه څۀ دي چې افغاني ټولنه ئې ژوندۍ او پرانستې ساتلې وه؛ خو د نولسمې پېړۍ پۀ اواخرو کښې د ژونديو او پرانستو تعلقاتو پر ځای د افغانانو او هندوستان پۀ تعلقاتو کښې د جبر يو داسې شديد عنصر داخل کړل شو چې نۀ يواځې ئې د افغانانو پر خپلواکۍ يوه ډېره کاري ضربه راوړه بلکې د ټولې سيمې امنيت ئې تر نن ورځې پورې خطر ته اچولی دی.
د يو پردي او استعماري قوت پۀ توره تاريخي افغانستان مات کړل شوی ؤ او د افغانانو خپلواکي تروړل شوې وه. دا د هر افغان حق ؤ او دی چې د خپل هېواد مات شوی وجود بيا پېوند کړي او خپله بائيللې خپلواکي بېرته تر لاسه کړي. هېڅ يو جمهوري، مترقي او روښانفکره وګړی د افغانانو لۀ دې حق څخه انکار نۀ شي کولی او څوک هم چې د افغانانو لۀ دې حق څخه انکار کوي، هغوی د برطانوي استعمار پۀ ضد د افغانستان او هندوستان د اولسونو د مبارزو او سرښندنو سپکاوی کوي او پۀ څرګنده د هغو استعماري ظلمونو حمايت کوي چې د زمکې د دې برخې پر انسانانو، غرونو، کاڼو، بوټو، ښارونو، مالداريو، کلتوري او تاريخي پېژندګلويو، اقتصادي شتمنيو او ټولنيزو رشته داريو او تعلقاتداريو باندې شوي دي.
خان عبدالولي خان پۀ خپل کتاب ‘باچاخان او خدائي خدمتګاري’ (دويم ټوک) کښې ليکي:
“د پېرنګي نظر بازو سترګو پۀ دې منطقه کښې د خپلو سامراجي او نوابادياتي پاليسۍ د کاميابولو د پاره دا ضروري ګڼلې وه او د روس پۀ خلاف ئې دا منطقه ډېره اهمه ګڼلې وه او دلته لوی افغانستان هغۀ لۀ دوه درې شکسته ورکړي وو. نو د لوی افغانستان د کمزوري کولو د پاره هغۀ افغانستان او پښتانه قابو پۀ شلو ټوټو کښې تقسيم هم کړل او مختلفې علاقې ئې ورله پۀ داسې حالت کښې وساتلې چې د شلمې صدۍ خو چرته هم درک نۀ لګېده، څوک پۀ څوارلسمه صدۍ کښې او څوک داسې پۀ پاټکي پاټکي تر اتلسمې نولسمې پېړۍ رارسېدلي وو. دا ئې ياغستان، دا ئې قبائلي علاقې، دا ئې ايجنسۍ، دا ئې رياستونه، دا ئې بلوچستان؛ او زمونږ د خدائي خدمتګارو دا عقيده وه چې تر څو دا ټوټې ټوټې بيا يو وجود او يو قام نۀ شي نو پښتون هغه زوړ او اصلي مقام ته نۀ رسي. دغه يو کور د پښتون پۀ يو ورورولۍ او يو اتفاق راټولول د پښتون قوت دی.”
پۀ اوسني افغانستان او سيمه کښې د جنګ رېښې د دوو استعماري قوتونو برطانيه او زارِ روس تر منځ د افغان رياست راګېر شوي برخليک ته رسېږي. پۀ 1919ز کښې د افغانستان هڅاند او روښانفکره امير غازي امان الله خان د امير عبدالرحمان خان پۀ دوره (1901-1880) کښې پېل شوی د جديد رياست د رغونې عمل لۀ بهرنۍ مداخلې څخه پۀ خلاصولو وتوانېد، استقلال ئې اعلان کړ او د ملت جوړونې پروسه ئې لۀ نوو اصلاحي طرحو سره پۀ رسمي بڼه پر مخ وړل وغوښت. د پېرنګي استعمار تر عتاب لاندې عبدالغفار خان پۀ ازاد افغانستان کښې روان دې بدلون ته خوشبين ؤ.
زۀ د افغانانو د مبارزو د تاريخ پۀ مطالعه کښې دې نتيجې ته رسېدلی يم چې پۀ ازاد افغانستان کښې د غازي امان الله خان د اصلاحاتو عمل او پۀ محکوم وطن کښې د باچاخان د ټولنيزې اصلاح تحريک يو او بل پۀ شعوري توګه reinforce کول او د افغانانو بشپړې خپلواکۍ ته ئې لاره هواروله.
د دې موضوع پۀ ارتباط تر ټولو مهم ټکی دا دی چې کله د پېرنګيانو پۀ نغوته پۀ افغانستان کښې دننه د غازي امان الله خان د روښانفکره او ټولنيزې اصلاحي پروژې خلاف بغاوتونه پېل شول نو يواځې او يواځې باچاخان او د هغۀ ملګري وو چې د غازي امان الله خان پۀ حق کښې ئې جلسې اعلان کړې، لۀ هغه سره د مرستې پۀ پار ئې چندې وکړې او هڅه ئې وکړه چې افغانان پۀ دې خبر کړي چې کۀ د امان الله تخت نسکور کړل شو او د بدلون پروسه ودرول شوه نو هغوی به ډېره لويه بربادي وويني. پۀ دې کښې داسې وخت هم راغلو چې باچاخان او ميا جعفر شاه د بلوچستان پۀ لار کندهار ته روان شو چې هلته نېغ پۀ نېغه افغانان لۀ دې لويې دسيسې خبر کړي او لۀ امير سره د خپلې مرستې پۀ باب خبرې وکړي، خو پۀ بلوچستان کښې پر دوي بندېز ولګېد او بېرته پښتونخوا ته راستانۀ کړل شول. پېرنګيان پوهېدل چې د باچاخان موثره ژبه پر پلان شوو بغاوتونو باندې قابو ساتلې شي. غازي امان الله خان لاړ او د پېرنګيانو لاسپوڅی بچه سقاو د کابل پر تخت کښېنوست.
دلته دا يادونه هم ضروري ګڼم چې د غازي امان الله خان د اصلاحاتو پروګرام پۀ دوو حوالو د باچاخان لۀ اصلاحي تحريک سره توپير درلود. يو دا چې د امان الله خان پروګرام لۀ پورته لاندې ته انتقالېدو؛ يعني رياستي ؤ ـــ خو د باچاخان تحريک لۀ لاندې څخه ؤ او ټولنيز ؤ. دوېم دا چې د امان الله خان پۀ پروګرام کښې د بیړې او تادۍ عنصر شامل ؤ خو د باچاخان تحريک پۀ قراره او ارتقائي توګه مخ پۀ وړاندې روان ؤ. د امان الله خان او باچاخان د اصلاحي پروګرامونو پرتليز جاج مو پۀ دې پوهولی شي چې کوم ډول بدلونونه پائیداره او دوامداره پاته کېدلی شي.
کۀ څۀ هم افغانستان ته دا وياړ پۀ برخه ؤ چې ځان ئې د براه راست کالونيلزم لۀ منګولو څخه تر يوۀ حده ژغورلی ؤ، خو د برطانوي استعمار پۀ موجودګۍ کښې د افغانستان د بشپړې ازادۍ ساتل ناممکن ګرځېدلي وو. باچاخان پۀ دې پوهېدو چې اوس يواځې پۀ هندوستان کښې لۀ دننه د برطانوي استعمار د وهلو لار پاته ده. خدائي خدمتګار تحريک پر هم دې لار د هندوستان ازادي غوښتونکو تحريکونو ته د ملګرتيا لاس ور اوږد کړ.
زما پۀ اند پۀ هندوستان کښې د براه راست کالونيلزم لۀ اختتام سره د افغان رياست بفر سټېټس هم پای ته ورسېد چې د خدائي خدمتګارو د مبارزې يوه لويه لاس ته راوړنه ئې ګڼلې شو خو لۀ بده مرغه، د افغانانو د ازادۍ اوږد مزل پای ته ونۀ رسېد، نور تفصيل ته نۀ ځو، پر تش مېدان پۀ تش لاس ولاړو خدائي خدمتګارانو د هند د تقسيم پر مهال خپله قامي مقدمه درج کړه، لۀ رېفرنډم څخه ئې بائیکاټ وکړ او پۀ بنو کښې ئې د ازاد رياست د غوښتلو قرارداد منظور کړ.
پۀ نوي جوړ شوي پاکستان کښې د سياست د ساحې د لټولو عمل چې کله نېشنل عوامي پارټي ته رسېږي نو مرام ئې قامونو ته هغه اختيار حاصلول وو چې د خپلې خاورې فېصله پۀ خپله مرضۍ سره وکړې شي. د قامونو دا حق پۀ هغه وخت کښې پۀ بېن المللي کچه منل شوی ؤ. نېپ پۀ دې حواله د کار کولو اٰپشن پۀ لاس کښې درلود او پۀ ډېر موثر انداز ئې د دې استعمال هم کړی ؤ. د قامونو د خود مختارۍ پروسه پۀ اخري تجزيه کښې بشپړې زمکنۍ خپلواکۍ ته رسېږي. دا يوه جمهوري لاره ده، د عامو اولسونو ذهنونو ته پۀ اسانه اپيل کولی شي او هم مبارزې ته نظرياتي غنا بخښلې شي.
د سردار محمد داود خان لۀ خوا د جمهوريت پر اعلان (1973) او د هغې پۀ نتيجه کښې بيا د ثور انقلاب (1978) پر جواز دواړو باندې د ولي خان نظر پۀ افغانستان کښې د ټولنې پر جوړښت او د بیړني سياست پر خطرناکو پايلو ولاړ ؤ. ولي خان د داوړو پېښو پۀ حقله يو ډول نظر درلود، هغه دا ؤ چې د داود خان جمهوريت او د نور محمد تره کي پۀ مشرۍ کښې رامنځ ته شوی انقلاب دواړه بیړني او بې وخته اقدامات وو. پۀ نورو ټکو، داود خان چې کوم بیړنی ګام اخستی ؤ، پۀ غبرګون کښې به ئې بیړني اقدامات کېدل او ټولنه ئې د شکست و ريخت پۀ طرف بېوله او د تشدد عنصر به پکښې تر يوۀ خطرناکه حده غلبه موندله. ولي خان پۀ دې سياسي پرمختګونو د پوهېدلو د پاره د افغانستان د ټولنيز او اقتصادي جوړښت يوه ژوره مطالعه کړې وه او د هغې پر اساس ئې هغه څۀ ته اشاره کړې وه چې پۀ لنډ وخت کښې پېښېدونکي وو او اوږد مهاله اغېزې لرونکي وو.
د باچاخان تحريک د ثور انقلاب پۀ حقله خپل يو علمي دريځ درلود خو د ردِ انقلاب پۀ حواله ئې خپل سياسي دريځ هم تر هر چا روښانه ساتلی ؤ. هغوي خپل قام ته دا حقيقت پۀ ډېره مېړانه سره رسولی ؤ چې څنګه امريکا او روس پۀ دې سيمه کښې د افغانانو د مفاداتو برعکس يو او بل ته اړم کېږي او څنګه به افغانان د دوي د جنګ پۀ سرو لمبو کښې لوغړېږي. د انقلاب او ردِ انقلاب پۀ منځ کښې بيا د باچاخان او ولي ګوند غېر جانبدار پاتې نۀ شو، پۀ افغانستان کښې دننه ئې د پخلاينې سياست تجويز کاوۀ خو د بهر مداخله ئې پۀ انتهائي سختو ټکو کښې غندله. پۀ داسې يو وخت کښې چې لۀ ټول عالمِ اسلام څخه پۀ افغانستان کښې د روان خونړي جنګ خلاف هېڅ يو موثر اواز نۀ اورېدل کېدو، يواځې د باچاخان او ولي خان ګوند ؤ چې دې جنګ ته ئې د جهاد پر ځای پۀ اولسي غونډو کښې برملا “فساد” وايۀ. هم دا ګوند ؤ چې د افغانستان پۀ حقله ئې د پاکستان د پوځ او استخباراتي ادارو شومې هڅې ټول افغان ملت ته افشا کولې. هم دا ګوند ؤ چې د ضياء الحق اسلام ته ئې د “امريکې اسلام” وايۀ او دا ئې د افغانستان د انقلاب خلاف يو منظم سازش ګاڼۀ. هم دا ګوند ؤ چې د ډ اکټر صاحب نجيب الله د ملي يو والي د حکومت، ملي روغې جوړې او سيمه ايزې همکارۍ طرحه ئې پۀ بشپړه توګه حمايه کوله او پۀ دې برخه کښې ئې خپله ټوله مرسته افغان ملت ته وړاندې کوله.
نړۍ د ډاکټر نجيب طرحه ونۀ منله او پۀ نتيجه کښې افغان رياست ضعف ته ولټېد. پۀ نويمه لسيزه کښې چې کومه سياسي خالي ګاه پۀ افغانستان کښې راپېدا کړل شوه، هغه بيا پاکستان او د افغانستان نورو دښمنانو پۀ خپلو متشددو مزدورانو ډکه کړه. لۀ مجاهدينو وروسته د طالبانو ظهور افغانستان نېغ پۀ نېغه د هغه چا پۀ ولقه کښې ورکړ چې باچاخان د هند د وېش پر مهال پۀ “شرمښانو” ياد کړي وو. د باچاخان د مفکورې وارث ګوند عوامي نېشنل پارټي پۀ دې وخت کښې هم تر هر چا فعاله پاته شوه او د طالبانو پۀ نوم د افغانستان د دښمنانو د خونړۍ پاليسۍ نتائج ئې خپل قام ته بيان کړل. خو دلته دا يادونه هم ضروري ده چې پۀ افغانستان کښې څنګه څنګه رياست خوارځواکی کېدو، دلته پر عوامي نېشنل ګوند زمکه تنګېده. پۀ تېرو څلورو لسيزو کښې چې د ای اين پي پر نظرياتي او تنظيمي مرکزه څومره يرغلونه هم شوي دي، اساسي لامل پکښې د دې ګوند د افغانستان پۀ حقله دريځ دی.
لۀ نائن الېون وروسته چې د امريکا متحده ايالاتو او د هغوي اتحاديانو بيا د افغانستان پۀ طرف د تګ اراده وکړه نو د ای اېن پي رهبرِ تحريک خان عبدالولي خان د يو مطبوعاتي کنفرانس پۀ ترڅ کښې د افغانستان، افغانانو او امن پۀ حق کښې خپله طرفداري اعلان کړه او پۀ افغانستان کښې د واکمنو طالبانو، قابضې القاعدې او د پاکستان د شرخوښي شر پالي اسټېبلشمنټ د پاليسيو څرګند مخالفت ئې وکړ او هم داسې ئې امريکا ته خپله هغه تاريخي تېروتنه ور پۀ ياد کړه چې پۀ نتيجه کښې ئې ټوله سيمه اور ته لوېدلې وه. ولي خان د افغانستان د ژغورنې او بيا رغونې پۀ حقله د ګوند يو جامع پاليسي بيان وړاندې کړ چې د بون لۀ کنفرانس څخه واخلې بيا تر اوسنيو مذاکراتو پورې د ګوند راهنمائي کوي. دا يواځې تر الفاظو پورې محدوده پاليسي نۀ ده بلکې لۀ نائن الېون وروسته چې د جنګ تهېټر محکوم افغان وطن ته راشفټ کړل شو نو يواځې عوامي نېشنل ګوند عملاً د دې پۀ ضد ودرېدۀ او د خپلو داسې مشرانو او کارکنانو سرونه ئې د افغانانو د امن او خپلواکۍ پۀ خاطر قربان کړل چې د ګوند د ملا تير ګڼل کېدل. يواځينی سياسي ګوند ای اين پي وه چې اېنټي طالبان ډسکورس ئې پۀ سياسي توګه چېمپېن کړ او د سياست پۀ ژورتيا خبر خلق پوهېږي چې لۀ نائن الېون وروسته تر 2014ز پورې د طالبانو مخالفت د پاکستاني اسټېبلشمنټ د پاره څۀ معنٰي درلودله.
پۀ دې وروستيو څو مياشتو کښې چې د امريکا، پاکستان، طالبانو او نورو قوتونو تر منځ د مذاکراتو قیصه ګرمه شوې، ای اېن پي بيا هغه يواځينی ګوند دی چې د دې مذاکراتو لۀ طريقه کار سره څرګند مخالفت لري ځکه چې پۀ دې مذاکراتو کښې افغان حکومت شامل نۀ دی. ای اېن پي د افغانستان پر سر هغه مذاکرات نۀ مني چې د افغان حکومت پۀ نګرانۍ کښې نۀ وي. د افغانستان د استقلال او خود مختارۍ هم دومره دفاع د عوامي نېشنل ګوند پۀ وس پوره ده او پته نشته چې د دې جرم به ئې لا څومره سزا مقرره وي؛ خو ښائي دا هم يوه لويه د افتخار خبره وي چې د افغانستان او عوامي نېشنل ګوند مستقبل لۀ يو او بله سره تړلی دی.

Khan zaman kakar "say no to war]

اس قیادت کا کیا کیا جائے جو یہاں قوموں کی نسل کشی اور عوام کے قتل عام پہ کبھی ایک پیج پر نہیں آئی بلکہ کسی بھی لحاظ سے ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ملکی قیادت کے طور پر کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ آج جب انڈیا دشمنی کے نام پر فوجی سلطنت کو استحکام بخشنے کی ضرورت پڑی تو ہر ایک صرف یہ جملہ دہراتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ساری "قومی قیادت" ایک پیج پر ہے۔ ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہ آخر کس "قوم" کی قیادت ہے؟
ہم جنگوں کے خلاف ہیں، ہم جنگوں کو عوام دشمن سمجھتے ہیں، ہماری مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان جنگوں کے ذریعے استعماری خطوط پہ استوار ریاستیں سماج میں قوم پرست اور ترقی پسند سیاستوں کے لئے گنجائش خطرناک حد تک کم کرتی رہی ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں لیا جائے کہ عوام کے اصلی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر صرف انڈیا - پاکستان تعلقات کی کلاس چلتی رہے گی۔
میں نہیں مانتا کہ ایک شخص جو فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کے انتہائی بے دردی سے قتل اور اغوا ہونے کے خلاف بات نہیں کرتا، وہ خطے میں امن کا خواہاں ہوگا۔
میں اس شخص کے say no to war کو ایک بکواس سمجھتا ہوں جو افغانستان میں پاکستان کی تین دہائیوں سے جاری جنگ کے خلاف کبھی نہیں بولا ہے۔
میں پارلیمان کی بالادستی سے منکر لوگوں کا امن پسند ہونا چیلنج کرتا ہوں۔
میں پشتوں سرزمین پہ دہشت گردی کے آگے پیچھے، اوپر نیچے اور دائیں بائیں وردی کو چھپانے والے سیاستدانوں کو اس خطے میں جنگ کی طوالت اور جنگی اقتصاد کی وسعت کے مساوی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
سیاسی جاہل ہے وہ شخص جو پاکستان اور انڈیا کے موجودہ ٹینشن کے بڑے سیاق و سباق کو نظر انداز کرکے عمران خان کی بصیرت سے متاثر ہوا ہوا لگتا ہے۔
خسارے میں ہیں اس ملک کے لبرلز جو امن کی نعرہ بازی اور حب الوطنی کو بیلنس کرتے ہوئے غفورے کے دلدادے نظر آئے۔
قابلِ رحم ہیں ہمارے بعض قوم پرست نمائندے جو امن کا اپنا تاریخی بیانیہ پاکستان کی مقبول مسلم لیگی بلیک میلنگ پہ قربان کرگئے اور اس طرح سے بولے جیسے کوئی نوائے وقت کا گھٹیا صحافی بولتا ہے۔
افسوس ہوتا ہے بہت سارے جو پشتون وطن میں جنگ و دہشت گردی کے خلاف جاری احتجاجی تحریک میں قوم کا آخری آسرہ لگتے تھے انڈیا سے لڑائی کی بات آتے ہی جنگی قوماندانوں جیسے بولنے لگے اور سر پر وہی فیک حب الوطنی سوار کرگئے جس کا سب سے بڑا شکار خود پشتون رہے ہیں۔