میں نے کل اسلام آباد میں "عورت آزادی مارچ" میں شرکت کی۔ جس میں میرا ایک غرض پاکستان جیسی مستبد ریاست میں ایک سیاسی عمل کو سپورٹ کرنا تھا اور دوسرا شہری جدوجہد، نئے متوسط طبقے اور مرکزی علاقے کی جدوجہد کے خدوخال کو کچھ قریب سے دیکھنا تھا۔
عورت مارچ بلاشبہ ایک اہم سیاسی عمل تھا۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت کیلئے مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ اس میں افراد تھے جو ایک اجتماعی نظم میں پرونے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اس خواہش میں اتنے ہی زیادہ تضاد دیکھنے کو ملے جتنے اس دور کے نظریاتی تضادات ہیں۔ شرکاء میں سے نظریاتی پختگی اور ایک لانگ ٹرم کی سیاسی پالیسی کے متلاشی کتنے ہونگے اس کا پورا اندازہ ان کے نعروں اور پلے کارڈز سے لگانا مشکل تھا لیکن ایک بات پورے یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ عورت مارچ کا بنیادی مقصد خواتین کیلئے اپنی شناخت کا دعویٰ کرنا تھا۔ خاتون ہونے (being woman) کو نہ صرف ایک علحیدہ کٹیگری کے طور پر دکھانا اور ابھارنا مقصد تھا بلکہ اس کو ایک سیاسی سرگرمی اور کرئیر کے طور پر پیش کرنا بھی ترجیحات میں سے تھا۔ تفخر اور مظلومیت کے ملے جلے اور متضاد جذبات، متنوع اور متضاد مطالبات اور لبرلزم، مارکسزم، نیشنلزم اور اسلام کے مختلف رنگ جو عورت مارچ میں نظر آئے اس سے صرف ایک مخصوص طبقے کی تاریخی شناخت کا خدوخال واضح ہوتا تھا۔ پورے سماج کی نمائندگی کا دعوی' شاید وہاں کیا بھی نہیں گیا اور کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جتنی آزادی اسی پدرسری سماج میں ان خواتین کو حاصل تھی اتنی آزادی پانے کیلئے محکوم قوموں کے مردوں نے سالہا سال جدوجہد کی، پا نہیں سکی۔ پانچ وقت کے نمازی قوم پرستوں کی روزمرہ سیاست میں ریاست کی طرف سے 'اسلام کی مداخلت' کی جو پالیسی ہے وہ عورت مارچ جیسی شہری سرگرمیوں میں شریک لوگوں کی علاقائی اور سماجی حثیت کے پیش نظر کبھی نہیں اپنائی جاسکتی۔ یہ ایک تاریخی اور ساختیاتی مسئلہ ہے۔
اس نیو لبرل دور میں آزادی ایک free-floating اصطلاح بن کے رہی ہے۔ کون کو کس سے آزادی چاہے کو ایک انسان کی ذات تک محدود کرنے کا ٹرینڈ شعوری اور لاشعوری طور پر ایک مقبول بیانیہ تشکیل کرگیا ہے اور میٹروپولیٹن میں آباد انسان کی موضوعی شخصیت اتنی ابھر گئی ہے جس کو اب ایک سیرِ حاصل مکالمے اور اجتماعی احساسِ شراکت میں دیکھنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جنسی امتیاز جیسے گہرے تاریخی مسئلے کے سیاسی اظہار کو کیسے ایک دن میں سمٹنے کو کارنامہ سمجھا گیا ہے لیکن اسی ایک دن کا "شور" بھی شاید کسی کیلئے میٹرو پولیٹن کی بے حسی میں ایک غنیمت سے کم نہ ہو۔
فکری پسماندگی اور فکری سطحی پن میں انتخاب کی بنیاد پر پوری دنیا کو قدامت پرست اور روشن خیال میں تقسیم کرنے کی سیاست پچھلے چالیس سال میں اپنے ہی بحران کاشکار رہی ہے اور کسی بھی حوالے سے انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال روکنے کا کوئی ایک ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ قدامت پسندی اور روشن خیالی کے مصنوعی تضاد کی نشاندہی کرنے والوں کو ایک سیاسی "اقلیت" قرار دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حتیٰ کہ مکالمے کی گنجائش بھی نہیں رکھی گئی ہے۔ تشخص کی سیاست قومی آزادی کے سوال سے ذات اور جنس کی سطح تک پہنچانے کو انسان کی تاریخ میں ایک ترقی یافتہ سٹیج قرار دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے مستبد ریاستوں نے بڑی حد تک اپنا استحکام یقینی بنایا ہے۔
لبرل فیمینزم کا جو میٹا نریٹیو بناکے دیا گیا انسانی معاشروں کے حوالے سے سنگین فکری مغالطوں اور خطرناک جنرلائزیشنز کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ "ترقی" اور "پسماندگی" کی جو حدِ امتیاز بتائی گئی ہے اس کی جڑ اس استعماری تاریخ میں ہے جب دنیا میں قوموں کو اپنی تاریخی نشوونما کرنے سے روکا گیا اور ان کو کائناتی معیارات پہ پورا اترنے کا پابند بنایا گیا۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے مرکزیت پسند فیمینسٹوں کو یہاں پہ آباد قوموں کے جنسی سوالات کی تاریخ کی اے بی سی کا بھی پتہ ہو، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ ناانصافی خاتمہ ہو۔ پدرسری ہے، پدرسری ختم ہو۔ اب کہاں پہ کونسی پدرسری ہے اس بحث میں کوئی نہیں پڑتا۔ پدرسری کو کیسے ختم کیا جائے کوئی سیاسی پروگرام بتانے کی بجائے روزگار، تعلیم اور انتہائی ذاتی نوعیت کے حقوق کے کھوکھلے نعروں پہ ہی اکتفاء کیا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حل کے طور پر ریاست کی مداخلت کی بجائے ان کے پاس نہ کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ کل کا "عورت مارچ" بھی بار بار سیاسی نعروں، جھنڈوں اور اختلافات سے بالاتر رکھنے کا ثبوت پیش کرتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنے جھنڈے لہرانے سے سختی سے منع کیا گیا۔ یا تو ان لوگوں کو ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا اور یا سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کی وہی پرانی کوشش تھی جو سول سوسائٹی کا خاصہ رہی ہے۔ ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی بڑی جمہوری سیاسی جماعت کا جھنڈا وہاں پہ لانا اور لہرانا ایک بڑی معنی رکھتا تھا۔ سنیٹر شہری رحمان نے اس حوالے سے جو احتجاج کیا وہ جائز تھا۔
پاکستان میں ہر بالادست بیانیے کی کلیت اور تکثریت کا سوال اب بلوچستان اور وزیرستان کے کچھ سلیکٹڈ حوالوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ "عورت مارچ" میں بھی یہی صورتحال تھی، باقی کسی بلوچستان اور "وزیرستان" (پشتونخوا) کی کوئی شکل وہاں پہ نظر نہیں آئی۔
شرکاء میں بعض پشتون اور بلوچ دوستوں نے ہم سے اپنے احساسِ بیگانگی کا بھی ذکر کیا، ایسا لگتا تھا کہ کسی نئی کائنات میں آگئے ہوں۔ بعض نے سرمایہ دار اور غریب عورتوں کی دو الگ کائناتوں پہ بھی بات کرنا چاہا لیکن میرے لئے مارچ میں شریک خواتین کہ وہ کتنی سرمایہ دار ہیں اور کتنی غریب ہیں کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ ویسے میں نے مارچ میں جانے سے پہلے ہندوستان کے اردو ترقی پسند ادب کے ایک بڑے نام علی سردار جعفری کی ایک نظم (سرمایہ دار لڑکیاں) فیسبوک پہ شئیر کی تھی۔ وہ نظم تو کوئی نصف صدی پہلے لکھی گئی تھی، آج سرمایہ داری اور سرمایہ دار لڑکیوں کا ایک اور قسم کا پیچیدہ سسٹم بن گیا ہے۔ مارچ میں تو مجھے پاکستان کا وہ نیا متوسط طبقہ نظر آتا تھا جس کا سب کچھ، علم و بصیرت، جسم و مرضی، کھانا و بستر اور آزادی و انقلاب میٹرو پولیٹن کے ساتھ جڑا ہوا ہے
عورت مارچ بلاشبہ ایک اہم سیاسی عمل تھا۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت کیلئے مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ اس میں افراد تھے جو ایک اجتماعی نظم میں پرونے کی خواہش رکھتے تھے لیکن اس خواہش میں اتنے ہی زیادہ تضاد دیکھنے کو ملے جتنے اس دور کے نظریاتی تضادات ہیں۔ شرکاء میں سے نظریاتی پختگی اور ایک لانگ ٹرم کی سیاسی پالیسی کے متلاشی کتنے ہونگے اس کا پورا اندازہ ان کے نعروں اور پلے کارڈز سے لگانا مشکل تھا لیکن ایک بات پورے یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ عورت مارچ کا بنیادی مقصد خواتین کیلئے اپنی شناخت کا دعویٰ کرنا تھا۔ خاتون ہونے (being woman) کو نہ صرف ایک علحیدہ کٹیگری کے طور پر دکھانا اور ابھارنا مقصد تھا بلکہ اس کو ایک سیاسی سرگرمی اور کرئیر کے طور پر پیش کرنا بھی ترجیحات میں سے تھا۔ تفخر اور مظلومیت کے ملے جلے اور متضاد جذبات، متنوع اور متضاد مطالبات اور لبرلزم، مارکسزم، نیشنلزم اور اسلام کے مختلف رنگ جو عورت مارچ میں نظر آئے اس سے صرف ایک مخصوص طبقے کی تاریخی شناخت کا خدوخال واضح ہوتا تھا۔ پورے سماج کی نمائندگی کا دعوی' شاید وہاں کیا بھی نہیں گیا اور کیا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جتنی آزادی اسی پدرسری سماج میں ان خواتین کو حاصل تھی اتنی آزادی پانے کیلئے محکوم قوموں کے مردوں نے سالہا سال جدوجہد کی، پا نہیں سکی۔ پانچ وقت کے نمازی قوم پرستوں کی روزمرہ سیاست میں ریاست کی طرف سے 'اسلام کی مداخلت' کی جو پالیسی ہے وہ عورت مارچ جیسی شہری سرگرمیوں میں شریک لوگوں کی علاقائی اور سماجی حثیت کے پیش نظر کبھی نہیں اپنائی جاسکتی۔ یہ ایک تاریخی اور ساختیاتی مسئلہ ہے۔
اس نیو لبرل دور میں آزادی ایک free-floating اصطلاح بن کے رہی ہے۔ کون کو کس سے آزادی چاہے کو ایک انسان کی ذات تک محدود کرنے کا ٹرینڈ شعوری اور لاشعوری طور پر ایک مقبول بیانیہ تشکیل کرگیا ہے اور میٹروپولیٹن میں آباد انسان کی موضوعی شخصیت اتنی ابھر گئی ہے جس کو اب ایک سیرِ حاصل مکالمے اور اجتماعی احساسِ شراکت میں دیکھنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جنسی امتیاز جیسے گہرے تاریخی مسئلے کے سیاسی اظہار کو کیسے ایک دن میں سمٹنے کو کارنامہ سمجھا گیا ہے لیکن اسی ایک دن کا "شور" بھی شاید کسی کیلئے میٹرو پولیٹن کی بے حسی میں ایک غنیمت سے کم نہ ہو۔
فکری پسماندگی اور فکری سطحی پن میں انتخاب کی بنیاد پر پوری دنیا کو قدامت پرست اور روشن خیال میں تقسیم کرنے کی سیاست پچھلے چالیس سال میں اپنے ہی بحران کاشکار رہی ہے اور کسی بھی حوالے سے انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال روکنے کا کوئی ایک ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ قدامت پسندی اور روشن خیالی کے مصنوعی تضاد کی نشاندہی کرنے والوں کو ایک سیاسی "اقلیت" قرار دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حتیٰ کہ مکالمے کی گنجائش بھی نہیں رکھی گئی ہے۔ تشخص کی سیاست قومی آزادی کے سوال سے ذات اور جنس کی سطح تک پہنچانے کو انسان کی تاریخ میں ایک ترقی یافتہ سٹیج قرار دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے مستبد ریاستوں نے بڑی حد تک اپنا استحکام یقینی بنایا ہے۔
لبرل فیمینزم کا جو میٹا نریٹیو بناکے دیا گیا انسانی معاشروں کے حوالے سے سنگین فکری مغالطوں اور خطرناک جنرلائزیشنز کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ "ترقی" اور "پسماندگی" کی جو حدِ امتیاز بتائی گئی ہے اس کی جڑ اس استعماری تاریخ میں ہے جب دنیا میں قوموں کو اپنی تاریخی نشوونما کرنے سے روکا گیا اور ان کو کائناتی معیارات پہ پورا اترنے کا پابند بنایا گیا۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے مرکزیت پسند فیمینسٹوں کو یہاں پہ آباد قوموں کے جنسی سوالات کی تاریخ کی اے بی سی کا بھی پتہ ہو، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ ناانصافی خاتمہ ہو۔ پدرسری ہے، پدرسری ختم ہو۔ اب کہاں پہ کونسی پدرسری ہے اس بحث میں کوئی نہیں پڑتا۔ پدرسری کو کیسے ختم کیا جائے کوئی سیاسی پروگرام بتانے کی بجائے روزگار، تعلیم اور انتہائی ذاتی نوعیت کے حقوق کے کھوکھلے نعروں پہ ہی اکتفاء کیا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حل کے طور پر ریاست کی مداخلت کی بجائے ان کے پاس نہ کوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ کل کا "عورت مارچ" بھی بار بار سیاسی نعروں، جھنڈوں اور اختلافات سے بالاتر رکھنے کا ثبوت پیش کرتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنے جھنڈے لہرانے سے سختی سے منع کیا گیا۔ یا تو ان لوگوں کو ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا اور یا سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کی وہی پرانی کوشش تھی جو سول سوسائٹی کا خاصہ رہی ہے۔ ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی بڑی جمہوری سیاسی جماعت کا جھنڈا وہاں پہ لانا اور لہرانا ایک بڑی معنی رکھتا تھا۔ سنیٹر شہری رحمان نے اس حوالے سے جو احتجاج کیا وہ جائز تھا۔
پاکستان میں ہر بالادست بیانیے کی کلیت اور تکثریت کا سوال اب بلوچستان اور وزیرستان کے کچھ سلیکٹڈ حوالوں کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ "عورت مارچ" میں بھی یہی صورتحال تھی، باقی کسی بلوچستان اور "وزیرستان" (پشتونخوا) کی کوئی شکل وہاں پہ نظر نہیں آئی۔
شرکاء میں بعض پشتون اور بلوچ دوستوں نے ہم سے اپنے احساسِ بیگانگی کا بھی ذکر کیا، ایسا لگتا تھا کہ کسی نئی کائنات میں آگئے ہوں۔ بعض نے سرمایہ دار اور غریب عورتوں کی دو الگ کائناتوں پہ بھی بات کرنا چاہا لیکن میرے لئے مارچ میں شریک خواتین کہ وہ کتنی سرمایہ دار ہیں اور کتنی غریب ہیں کا پتہ لگانا مشکل تھا۔ ویسے میں نے مارچ میں جانے سے پہلے ہندوستان کے اردو ترقی پسند ادب کے ایک بڑے نام علی سردار جعفری کی ایک نظم (سرمایہ دار لڑکیاں) فیسبوک پہ شئیر کی تھی۔ وہ نظم تو کوئی نصف صدی پہلے لکھی گئی تھی، آج سرمایہ داری اور سرمایہ دار لڑکیوں کا ایک اور قسم کا پیچیدہ سسٹم بن گیا ہے۔ مارچ میں تو مجھے پاکستان کا وہ نیا متوسط طبقہ نظر آتا تھا جس کا سب کچھ، علم و بصیرت، جسم و مرضی، کھانا و بستر اور آزادی و انقلاب میٹرو پولیٹن کے ساتھ جڑا ہوا ہے